چونکہ میں پہلی بار لاہور آ رہا تھا، میرا دل ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار تھا، میرا تعلق لودھراں ضلع کے ایک گاؤں سے ہے ، ایک خوشحال زمیندار گھرانے کا چشم وچراغ ہوں ، لودھراں ڈگری کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد، میں نے ایم بی اے کرنے کا فیصلہ کیا، ابا جی تو چاہتے تھے کہ میں وکیل بنوں ،پنجاب کے اکثر زمیندار خاندان اپنے بیٹوں میں سے کسی ایک کو ایل ایل بی ضرور کرواتے ہیں ، گاؤں میں سو قسم کے پھڈے چلتے رہتے ہیں ، تو گھر کے وکیل کے بہت فائدے ہوجاتے ہیں ،میرے بڑے بھائی کو پڑھائی میں خاص دلچسپی نہیں تھی ، میٹرک تک ہی پڑھ پائے اور زمینداری میں مصروف ہوگئے ، لیکن میں پڑھائی میں بہت تیز تھا، بچپن سے میری خواہش تھی کہ میں کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کروں ، ہمارے پورے گاؤں اور اردگرد کے دیہات میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کیا ہو، اور میرا مستقبل کا پلان بھی یہ تھا کہ میں اپنی ایک ورلڈ لیول کی سافٹ وئیر کمپنی کھولوں ، اباجی نے بھی میرے فیصلے پہ کوئی خاص تردد نہیں کیا، میں ٹرین سے لاہور کے لیے روانہ ہوگیا، لاہور کا نام میرے کانوں میں بہت کچھ سن کر آتا تھا ، کچھ خوابوں سے لبریز، کچھ خبروں کی تلخیوں سے بھرا ہوا۔ لاہور، جہاں شہر کی رونقیں اور تاریخی عمارتیں ایک طرف، تو دوسری طرف کہانیاں تھیں جو سن کر انسان کا دل دھڑک اٹھتا تھا۔ کہیں ترقی کی روشنی تھی، تو کہیں سماجی پیچیدگیاں۔ میں اپنے گاؤں سے نکل کر، اس بڑے شہر میں قدم رکھنا چاہتا تھا جہاں زندگی کے نئے دروازے کھلتے ہوں، مگر ساتھ ہی دل میں کچھ خدشات بھی چھپے تھے کہ یہاں کی دنیا میرے لیے کتنی مہربان ہوگی۔ یہ وہ لاہور تھا، جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا، اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنی تھی، اپنے مستقبل کی بنیاد رکھنی تھی ۔

ایم سی ایس کرنے کے لیے لاہور میں ، ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ مگر سب سے بڑا مسئلہ میری رہائش کا تھا۔ ہوسٹل کی زندگی میرے مزاج کے خلاف تھی، سخت پابندیاں اور بے جا قوانین میرے لیے قبول کرنا مشکل تھے، میں گاؤں کا خالص باشندہ تھا، آزاد منشی میری فطرت اور بنا روک ٹوک اپنی زندگی گزارنا میں اپنا حق سمجھتاتھا ، میں چاہتا تھا کہ اپنی ذاتی جگہ ہو، جہاں میں اپنی مرضی سے زندگی گزار سکوں۔

روپے پیسے کی کوئی فکر نہیں تھی ، کچھ دن میں ایک ہوٹل میں رہا ، جو یونیورسٹی کے قریب ہی تھا،مگر دل چاہتا تھا کہ جلد از جلد کوئی گھر یا کمرہ کرائے پہ مل جائے ، اس دوران میرا ایک اچھا دوست بن گیا تھا ، نام اس کا گلریز تھا،گلریز اور میری طبیعت آپس میں خوب میل کھاتی تھی ، جس کی وجہ سے ہماری بیچ بے تکلفی بھی بہت پیدا ہوگئی تھی ، میں نےا س سے گھر کے بارے میں ذکر کیا تو وہ بولا، ارے یار تم فکر نہ کرو، ویسے تم پورا مکان لے کر کیا کروگے ، تمہارے لیے تو ایک ہی کمرہ کافی ہوگا ، ہم ڈھونڈ لیں گے ، میں بھی خوش ہوگیا ، کچھ دن بعد، گلریز نے بتایا کہ اس کی امی نے ان کی فیملی ڈاکٹر، ڈاکٹر عروبہ سے تمہارے مسئلے کے بارے میں تذکرہ کیا تو اس نے بتایا کہ اس کی ایک فرینڈ گھر کا ایک پورشن رینٹ پہ دینا چاہتی ہے، لیکن ان کی شرط ہے کہ وہ بندہ نیک اور شریف ہو، اور میرے یار تم تو شکل سے ہی شریف دیکھائی دیتے ہو، سیدھا سادھا پینڈو ہاہاہاہا، گلریز قہقہہ لگاتے ہوئے بولا تو میں بھی ہنس پڑا ، شام کو ان کی طرف چلنا ہے ، گلریز نے مجھے بتایا تو میں بہت خوش اور پرجوش ہوگیا۔

ڈاکٹر عروبہ کا کلینک لاہور کے ایک پوش علاقے میں تھا، اسی شام، مقررہ وقت پر، ہم ڈاکٹر عروبہ کے کلینک پہنچے۔ وہاں کچھ مریض انتظار کر رہے تھے، چند ہی لمحوں میں ڈاکٹر عروبہ آئیں، آہ ، میری جیسے ہی ان پہ نگاہ پڑی ، میری آنکھوں نے تو اپنی فطرت ہی بدل ڈالی ، میری آنکھیں اس بے مثال حُسن کی مالک ڈاکٹر عروبہ کو دیکھ کہ جھپکنا ہی بھول گئیں، ہمارے گاؤں میں بھی بہت حُسن ہے ، لیکن یہ حُسن تو ایسا لگتا تھا جیسے کسی اور ہی سیارے سے وارد ہوا ہو، میں مبہوت ہو کہ ان کی جانب دیکھے جارہاتھا، قدرت نے کیا شہکار تخلیق کیاتھا، میں حیرت سے گنگ ، بس اسے ہی دیکھے جارہا تھا ۔

Avatar photo

By Sahil

One thought on “گاؤں سے لاہور”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *